میرے بابا جی قدّس سرہّ العزیز کی خدمت میں ایک بُہت ضعیف العُمر شخص حاضر ہوا اور اِس خواہش کا اظہار کیا کہ میں حافظِ قرآن بننا چاہتا ہوں۔ میرے بابا جی اور حاضرینِ مجلس نے یہ دیکھا کہ اس بوڑھے میں صحیح سے کھڑا ہونا تو کجا، ٹھیک سے بات کرنے کی بھی سَکت نہیں۔ آنکھوں کے اندر باہر کے چاروں شیشے ایسے بُری طرح دُھندلائے ہوئے تھے کہ سامنے کھڑا شخص بھی اُسے کوسوں دُوربھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ پوپلے مُنہ میں صرف اور صرف ایک گلی سی زبان بچی تھی، وہ بھی اکثر حلقوم کی جانب کھنچی رہتی۔ دُوسرے کی بات البتّہ ہاتھ کا بھونپو سا بنا کر تھوڑی بہت سُن لیتا تھا۔ یہ حالتِ نا توانی اور شوقِ حفظِ قرآنی دیکھ کر بابا جی نے تبسُم فرماتے ہوئے اُسے پاس بٹھایا، پوچھا۔“بابا جی! آپ کو اِس عُمر میں، جب انسان گھوڑ ے پہ بیٹھنے کی تیاری کرتا ہے، یہ قرآن شریف کے حفظ کرنے کا خیال کیونکر آیا۔۔۔؟”
بوڑھے آدمی نے ٹھہر ٹھہر، سوچ سوچ کر جواب دیا۔
“پیر جی! بس جی، حیاتی ساری ایسے ہی گنوادی ہے۔ ایک دِن میرے یار عِلمے نے مجھے نصیحت کی کہ چراغ دین، تُو مرنے دَندے لگا ہوا ہے، سُنا ہے کہ قبر میں بڑا اندھیرا ہوتا ہے۔ یار! تیرا نام چراغ دین ہے، میرے دل میں آیا ہے تو قبر میں کوئی ایسا چراغ لے جائے جس سے تیری قبر کا اندھیرا دُور ہوجائے اور تجھے وہاں کوئی تکلیف وغیرہ نہ ہو۔۔۔ پیر جی! اس کی یہ بات میرے دل میں کُھب سی گئی۔ میں نے اپنے پِنڈ کے “مولبی” رمضان ملوانے سے بات کی۔ اس نے بتایا کہ قرآن پاک کا حافظ اپنی اگلی پچھلی سات سات پُشتوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے اور چونکہ مرنے والے کے سینے میں قرآن مجید ہوتا ہے اس لئے اس کی قبر میں نُور برستا رہتا ہے کیونکہ قرآن بھی چراغِ دین ہے۔۔۔”
بوڑھے بابے کی یہ بھولی بھالی، سیدھی سادی باتیں سُن کر بابا جی اور حاضرینِ مجلس بہت محظوظ ہوئے۔۔۔ بابا جی نے فرمایا۔
“بھائی، بزرگا! یہ تمہارے یار نے تو تمہیں بالکل بڑے فائدے اور عِلم کی بات بتائی، قرآن مجید تو واقعی چراغِ دین اور نورِ ہدایت ہے۔ جس نے اسے پکڑا، پڑھا، سیکھا، حفظ کیا۔ پھر اسے سنبھالا اور اس کے مطابق عمل کیا، اس نے فلاح پائی۔۔۔ اب بولو، کیا ارادے ہیں۔۔۔؟”
وہ رَعشہ زدہ ہاتھ کا بھونپو کان پہ دھرتے ہوئے بولا۔
“پیر جی! ذرا اُچّی بولو، مینوں گھٹ سُنائی دیندا اے۔۔۔”
بابا جی نے بڑی نرمی سے ذرا بلند آہنگ میں پھر اپنی بات دہرائی۔ بابے نے اپنے اُسی دیہاتی لہجے میں جواب دیا۔
“پیر جی! ارادہ تو یہی لے کر آپ کے قدموں میں پہنچا ہوں کہ آپ مجھے خدا واسطے چراغ دین بنا دیں۔ میں قرآن شریف کا حافظ بننا چاہتا ہوں۔۔۔”
بابا جی اب سنجیدگی سے پوچھنے لگے۔
“بابا جی، آپ نے ناظرہ تو پڑھا ہوگا۔۔۔؟”
“نہیں جی، میں نے کج پڑھا ہوتا تو آپ کے پاس کیوں آتا۔۔۔؟” بابے نے اسی ٹمپو میں جواب دیا۔
بابے کے باقی انٹرویو سے معلوم ہوا کہ اُسے نہ تو نماز آتی ہے اور نہ ہی کوئی آیت یا سورت۔۔۔ اور تو اور کلمہ طیّبہ بھی زیر زَبر کی غلطی کے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے “سوہنا پاک رسول اللہ” پڑھتا ہے۔ بسم اللہ شریف بھی صحت سے نہیں پڑھ سکتا۔ بابا جی نے جب ایسی عِلمی صورتحال دیکھی اور زبان، لہجہ، یاد داشت وغیرہ کو بھی ناقابلِ بھروسہ پایا تو بابے کو مشورہ دیا کہ تم صرف کلمہ شریف ہی اچھی طرح صحیح سے یاد کرلو اور ہر وقت اسی کا وِرد کیا کرو، انشاء اللہ، تم چراغ دین بن جاؤگے اور اللہ مہربان ہوا تو قبر بھی روشن رہیگی۔ اگلے جمعے کے روز مجھے آکر کلمہ پاک کا سبق سُنانا۔۔۔ بابا جی نے کلمہ شریف پڑھا کر بابے کو رُخصت کردیا۔ اگلے جمعہ کے روز جب بابے نے آکر کلمہ سُنایا تو وہی زیر زَبر کی غلطی اور وہی “سوہنا پاک رسول اللہ” کلمہ میں موجود تھا۔۔۔ بابا جی سخت جُز بُز ہوئے کہ آٹھ دنوں کی دُہرائی اور پکائی کے بعد بھی بابے کا کلمہ کچّے کا کچّا ہی رہا۔
“بابا جی! کلمہ طیّبہ کو صحیح اور دُرست مخرج کی ادائیگی کے ساتھ پڑھنا ہی دُرست اور ثواب ہے، غلط یا بڑھا گھٹا کر پڑھنے سے گناہ ہوتا ہے۔۔۔”
بابا جی نے دوبارہ زیر زَبر کی غلطیاں صحیح کرائیں اور سوہنا پاک کے زائد الفاظ لگانے سے منع فرمایا۔۔۔ بابا پوپلے مُنہ سے کلمہ دہراتے ہوئے چلا گیا۔ اگلے جمعے نماز سے پہلے بابا حاضر ہوگیا، آتے ہی ہاتھ کھڑے کردئیے۔
“پیر جی زیر تے زَبر دی غلطی تو ٹھیک ہو گئی ہے پر “سوہنا پاک” لگائے بغیر میں کلمہ شریف نہیں پڑھ سکتا، میرے مُنہ سے خالی محمد رسول اللہ نکلتا ہی نہیں ہے۔۔۔ آپ کے بچے سلامت رہیں، آپ اللہ کولوں مجھے سوہنا پاک لگا کر کلمہ پڑھنے کی اجازت لے دیں۔ بے شک کہہ دیں کہ بابے چراغ دین دے مُونہوں خالی محمد رسول اللہ پَھبدا ای نہیں۔۔۔”
بابا جی اور ہم سب ہم نشیں بابے چراغ دین کا پوپلا مُنہ دیکھ رہے تھے۔ بابا جی نے تیسری بار پھر بابے کو صحیح کلمہ پاک پڑھنے کی تلقین کر کے رُخصت کردیا۔ اِس بار رُخصت ہوتے سَمے وہ بوڑھا کچھ دِل گرفتہ سا نظر آیا تھا۔
کچھ دنوں سے بابا جی کے دُشمنوں کے مزاج برہم تھے۔ مجالسِ خاص و عام موقوف تھیں، کھانے پینے اور عبادات کے اوقات میں بھی خلل واقع تھا۔ روزانہ آنے جانے والے احباب کے علاوہ ہم دو تین خادمِ خاص جنہیں بابا جی کے مزاج میں خاصا دخل تھا، پریشان سے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں؟ ایسی کِسی میں جرات نہیں تھی کہ زبان کھول کر پُوچھ لیں، لے دے کر ایک صرف میں ہی تھا جس پہ سب کی نظر تھی کہ میں ٹوہ لگاؤں کہ سرکار کے مزاج کیوں برہم ہیں، نصیبِ دشمناں طبیعت پہ کیا بوجھ ہے؟
ظہرانے کے فوراً بعد، قیلولے سے پہلے میں اجازت لے کر حُجرے میں داخل ہوا۔ وہ فرشی نشست پہ نیم دراز سے کسی کتاب کے مطالعہ میں مگن تھے، وعلیکم السلام کہتے ہوئے کتاب بند کردی اور فرمایا۔
“بابا چراغ دین کے پِنڈ جانا ہے۔۔۔”
مسلسل اڑھائی گھنٹے تانگے پہ سفر کے بعد جب ہم بابے کے پِنڈ پہنچے تو گاؤں کی مسجد میں عصر کی اذان ہو رہی تھی۔ ہم سیدھے مسجد میں ہی چلے گئے۔ مسجد کے امام مولوی محمد رمضان کو جب معلوم ہوا کہ بابا جی تشریف لائے ہیں تو اس نے اپنے ذرائع سے کانوں کان پورے گاؤں میں یہ خبر اُڑا دی، دیکھتے ہی دیکھتے مسجد نمازیوں سے آسودہ ہوگئی۔ بابا چراغ دین اور اس کا بیلی بابا عِلم دین بھی آئے۔ عورتیں، بچّیاں، بوڑھیاں مسجد کے باہر پیپل کے درخت تلے جمع ہوگئیں۔ سُنّتوں سے سب فارغ ہوئے تو مولوی صاحب نے بابا جی کی خدمت میں امامت کے لئے درخواست کی، بابا جی نے متبسّم لہجے میں سب نمازیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
“اللہ کے نیک بندوں! آج میں خود ایک ایسے اللہ کے بندے کے پیچھے نماز ادا کرنے کے لئے یہاں تک آیا ہوں جو آپ کے گاؤں کا ہی وسیک ہے اور آپ سب اُس اللہ کے بندے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اب اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اُس اللہ کے بندے سے درخواست کروں کہ وہ ہماری امامت کرے۔۔۔”
سب نمازیوں نے “سُبحان اللہ’ سُبحان اللہ” کہتے ہوئے اپنی رضا مندی کا اظہار کردیا۔ تب بابا جی اُٹھے اور بابے چراغ دین کے پاس پہنچے دونوں ہاتھوں سے اُٹھایا ساتھ لے کر امامت کے مصلّے پہ لاکھڑا کیا، خود تکبیر کہنے کے لئے اس کے عقب میں کھڑے ہوگئے۔ اب بابے چراغ دین کا یہ عالم کہ وہ باؤلوں کی طرح اِدھر اُدھر سب کو دیکھ رہا ہے۔۔۔ اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اُس کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟۔۔۔ بابا جی نے اُسے کہا۔
“بابا چراغ دین! آج ہم سب تمہاری اقتداء میں نماز ادا کرینگے۔۔۔ میں تکبیر پڑھتا ہوں، تم نماز شروع کراؤ۔۔۔”
پھر وہی بات کہ بابے چراغ دین کے پلّے کچھ نہیں پڑ رہا تھا کہ اُس کے ساتھ آج یہ کیا ہو رہا ہے؟ اُس کے ساتھ تو ویسے ہی نمازی کھڑے ہونے سے اجتناب برتتے تھے کہ جب جماعت قیام میں ہوتی تو بابا رکوع میں چلا جاتا، قعدے کے وقت وہ سجدے میں پڑا ہوتا اور خدا جانے وہ کیا کچھ پڑھتا رہتا۔ اکثر وہ سجدے میں پڑا پڑا خرّاٹے بھی لینے لگتا۔ نماز دُعا کے بعد نیک دِل نمازی اُسے بیدار کر کے ہاتھ بازو تھامے گھر تک پہنچا آتے۔ اب اسی نیم مخبوط الحواس چراغ دین کو بابا جی نے پورے گاؤں کے خورد و کبیر کی نماز کا “فرسٹ کیپٹن” بنا کر مسجد کے “کاک پٹ” میں بٹھا دیا تھا۔ کوئی کیا بولتا، بابا جی کی حیثیت اور مرتبے سے سب ہی واقف تھے۔۔۔ بابا جی نے تکبیر پڑھنی شروع کردی، ختم بھی ہوگئی۔ اب بابا چراغ مُنہ کعبے کی طرف کرے۔ “اللہ اکبر” کہے تو مقتدی بھی “اللہ اکبر” کہہ کر ہاتھ باندھیں مگر بابا چراغ دین تو رُخ نمازیوں کی جانب کئے بِٹ بِٹ سب کو دیکھ رہا تھا۔ بابا جی نے اسکا رُخ قبلہ شریف کی جانب موڑا، خود ہی اُس کے ہاتھ ناف پہ رکھوائے اور خود اللہ اکبر کہہ نیّت باند لی۔ مقتدیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔۔۔ ایک منٹ، دو منٹ، پانچ منٹ۔ حتٰی کہ اتنا وقت گذر گیا کہ کوئی مشّاق حافظ پورا پارہ ختم کر جائے۔ بابا چراغ دین آگے کھڑا کبھی پیچھے دیکھنے لگتا، کبھی پنڈلیوں اور پاؤں کو کُھجلانے لگتا۔ بوڑھے، بیماروں اور بچّوں نے تو کبھی کے کھنگورے مارنے شروع کئے ہوئے تھے مگر وہاں آگے سُننے اور ان اشاروں کو سمجھنے والا کون تھا، بابا چراغ دین! جس کے دو قدم پہلو میں توپ داغی جائے تو اُسے پٹاخے کی آواز بھی سُنائی نہ دے۔ تین چار نمازی، نماز توڑ کر صفوں سے باہر نکل گئے اور کچھ وقت اِسی کشمکش صبر و جبر میں گذر گیا۔ پھر پتہ نہیں، خدا نے کیا دِل میں ڈالی کہ بابا چراغ دین” اللہ اکبر” کہے بغیر رکوع میں چلا گیا۔ اگر اس وقت ہمارے بابا جی “اللہ اکبر” نہ کہتے تو پیچھے کسی کو بھی نہیں پتہ تھا کہ آگے رکوع بھی ہو چکا ہے۔۔۔ بہر حال، سب ہڑ بڑا کر رکوع میں چلے گئے۔ جب دس منٹ اسی طرح مرغا بنے گذر گئے تو چند اور لوگ نماز توڑ کر مسجد میں سے نکل گئے۔ کھنگورے اور مصنوعی کھانسی بدستور چل رہی تھی۔ پھر اللہ کا کرنا کچھ یوں ہوا، بابا چراغ دین وہیں سے ہی سجدے میں چلا گیا بلکہ یوں کہئے لیٹ ہی گیا۔ مقتدی بھی سجدے میں تھے اور امام بھی اور اب جیسے ان سب کو سجدے نے پکڑ لیا تھا۔ کُھسر پُھسر ہورہی ہے اور ایک دوسرے کہ کہنیاں ماری جارہی ہیں۔ آخر کب تک کوئی سجدے میں پڑا رہے؟ انسان ہے، فرشتہ تو ہے نہیں کہ سجدے میں پڑا ہے تو قیامت تک وہیں پڑا ہے۔۔۔ اب پانچ سات نفر اور کم ہو گئے۔ امام صاحب کے خرّاٹوں کی آوازیں، مسجد کے سقادے تک سُنائی دے رہی تھیں۔ دو چار اور ثقہ قسم کے نمازی لاحول پڑھتے ہوئے نماز توڑ کر گھروں کو نکل گئے۔ اب پچھلی صفوں کی حالت مکئی کی اس کچّی پکّی چھلّی (بھٹے) جیسی تھی جس کے چَھدرے چَھدرے دانے ہوتے ہیں۔
صرف پہلی صف جس میں کچھ معزّزینِ گاؤں اور بابا جی سرکار تھے، دائیں بائیں اور آخری ایک دو نمازی غائب ہو جانے کے با وجود سالم تھی۔۔۔ کہیں پیچھے سے کسی بچّے کی آواز اُبھری۔
“اوئے بابا دینیاں مرگیا ایں یا جیونیاں ایں۔۔۔؟”
ہمارے بابا جی نے اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے سے سر اُٹھایا، سلام پھیر کر نماز توڑ دی۔ پھر بلند آواز سے “انا للہ واِنا اِلیہ رَاجعون” پڑھا۔۔۔ عشاء کے بعد بابا چراغ دین کی نمازِ جنازہ بابا جی نے پڑھائی۔ اپنے گاؤں کے علاوہ نزدیک و دُور کے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ بڑے بوڑھوں نے کہا آج تک اِس علاقے میں کسی انسان کا اتنا بڑا جنازہ نہیں دیکھا گیا۔ دفن کے وقت بابا جی نے خود اپنے ہاتھوں سے مٹّی دی اور دُعا کے بعد لوگوں سے کہا۔
“لوگوں! تم کیا جانو کہ تمہارے درمیان سے آج کون سی ہستی، عالمِ بالا کی جانب مراجعت کرگئی ہے۔۔۔ اَن پڑھ، دیہاتی سا بابا چراغ دین جسے نماز آتی تھی اور نہ کلمہ شریف صحیح سے پڑھا جاتا تھا۔ اسے کلمہ شریف پڑھتے وقت” سوہنا پاک” کی اضافت کے ساتھ “محمد رسول اللہ” کہنا اچھا لگتا تھا۔ بس اسی سوہنے پاک محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صدقے میں ہی اللہ نے اپنے اس سادے مُرادے انسان کو بخشش کا وہ رُتبہ عطا فرما دیا جس کی خواہش ولی اور قُطب کیا کرتے ہیں۔۔۔ بے شک، اللہ پاک کو اخلاص ہی پسند ہے۔ کسی کی غلط ملط اَدا، سادگی، بھولپن، نادانستگی میں بے اَدبی، بے تکلّفی اور بے عِلمی بھی جس میں اِخلاص اور نیّت کی پاکیزگی شامل ہو۔ اللہ پاک کو ایسی پسند آتی ہے کہ وہ اُسے شرفِ بخشش عطا کر دیتا ہے اور کہیں بڑے بڑے عابدوں، پر ہیز گاروں اور عاملوں کاملوں کو اُن کے غرور، ریا، تکبّر، عِلم یا پرہیز گاری کے ذرا سے زعم پہ انہیں قعرِ مذلّت میں پھینک دیتا ہے۔۔۔ یاد رکھوکہ اللہ کے ہاں ادنٰی و اعلٰی صرف اس کے اِخلاص، تقوٰی، مخلوق کی خدمت سے اور اس کے پیارے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کے مراحل سے گذرنے کے بعد تعیّن کئے جاتے ہیں۔ حسب و نسب، دستار و کلاہ۔ عِلم، داڑھیاں، نمازیں، حج، منصب وغیرہ سب کچھ بیکار اور بے فائدہ ہیں اگر اخلاص موجود نہیں ہے۔ ہر وقت اللہ پاک سے اس کا فضل و کرم طلب کرتے رہا کرو۔ وہ تمہاری عبادتوں اور ریاضتوں سے بے نیاز ہے، اس سے اپنی پر ہیز گاریوں اور نمازوں کا اَجر مت مانگو۔ اپنے آپکو گنہگار اور گندہ سمجھتے ہوئے صرف اس سے، اس کی رحمت اور توفیقِ بندگی چاہو۔۔۔
اقتباس ازپیا رنگ کالا : مصنف بابا محمد یحییٰ خان
بوڑھے آدمی نے ٹھہر ٹھہر، سوچ سوچ کر جواب دیا۔
“پیر جی! بس جی، حیاتی ساری ایسے ہی گنوادی ہے۔ ایک دِن میرے یار عِلمے نے مجھے نصیحت کی کہ چراغ دین، تُو مرنے دَندے لگا ہوا ہے، سُنا ہے کہ قبر میں بڑا اندھیرا ہوتا ہے۔ یار! تیرا نام چراغ دین ہے، میرے دل میں آیا ہے تو قبر میں کوئی ایسا چراغ لے جائے جس سے تیری قبر کا اندھیرا دُور ہوجائے اور تجھے وہاں کوئی تکلیف وغیرہ نہ ہو۔۔۔ پیر جی! اس کی یہ بات میرے دل میں کُھب سی گئی۔ میں نے اپنے پِنڈ کے “مولبی” رمضان ملوانے سے بات کی۔ اس نے بتایا کہ قرآن پاک کا حافظ اپنی اگلی پچھلی سات سات پُشتوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے اور چونکہ مرنے والے کے سینے میں قرآن مجید ہوتا ہے اس لئے اس کی قبر میں نُور برستا رہتا ہے کیونکہ قرآن بھی چراغِ دین ہے۔۔۔”
بوڑھے بابے کی یہ بھولی بھالی، سیدھی سادی باتیں سُن کر بابا جی اور حاضرینِ مجلس بہت محظوظ ہوئے۔۔۔ بابا جی نے فرمایا۔
“بھائی، بزرگا! یہ تمہارے یار نے تو تمہیں بالکل بڑے فائدے اور عِلم کی بات بتائی، قرآن مجید تو واقعی چراغِ دین اور نورِ ہدایت ہے۔ جس نے اسے پکڑا، پڑھا، سیکھا، حفظ کیا۔ پھر اسے سنبھالا اور اس کے مطابق عمل کیا، اس نے فلاح پائی۔۔۔ اب بولو، کیا ارادے ہیں۔۔۔؟”
وہ رَعشہ زدہ ہاتھ کا بھونپو کان پہ دھرتے ہوئے بولا۔
“پیر جی! ذرا اُچّی بولو، مینوں گھٹ سُنائی دیندا اے۔۔۔”
بابا جی نے بڑی نرمی سے ذرا بلند آہنگ میں پھر اپنی بات دہرائی۔ بابے نے اپنے اُسی دیہاتی لہجے میں جواب دیا۔
“پیر جی! ارادہ تو یہی لے کر آپ کے قدموں میں پہنچا ہوں کہ آپ مجھے خدا واسطے چراغ دین بنا دیں۔ میں قرآن شریف کا حافظ بننا چاہتا ہوں۔۔۔”
بابا جی اب سنجیدگی سے پوچھنے لگے۔
“بابا جی، آپ نے ناظرہ تو پڑھا ہوگا۔۔۔؟”
“نہیں جی، میں نے کج پڑھا ہوتا تو آپ کے پاس کیوں آتا۔۔۔؟” بابے نے اسی ٹمپو میں جواب دیا۔
بابے کے باقی انٹرویو سے معلوم ہوا کہ اُسے نہ تو نماز آتی ہے اور نہ ہی کوئی آیت یا سورت۔۔۔ اور تو اور کلمہ طیّبہ بھی زیر زَبر کی غلطی کے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے “سوہنا پاک رسول اللہ” پڑھتا ہے۔ بسم اللہ شریف بھی صحت سے نہیں پڑھ سکتا۔ بابا جی نے جب ایسی عِلمی صورتحال دیکھی اور زبان، لہجہ، یاد داشت وغیرہ کو بھی ناقابلِ بھروسہ پایا تو بابے کو مشورہ دیا کہ تم صرف کلمہ شریف ہی اچھی طرح صحیح سے یاد کرلو اور ہر وقت اسی کا وِرد کیا کرو، انشاء اللہ، تم چراغ دین بن جاؤگے اور اللہ مہربان ہوا تو قبر بھی روشن رہیگی۔ اگلے جمعے کے روز مجھے آکر کلمہ پاک کا سبق سُنانا۔۔۔ بابا جی نے کلمہ شریف پڑھا کر بابے کو رُخصت کردیا۔ اگلے جمعہ کے روز جب بابے نے آکر کلمہ سُنایا تو وہی زیر زَبر کی غلطی اور وہی “سوہنا پاک رسول اللہ” کلمہ میں موجود تھا۔۔۔ بابا جی سخت جُز بُز ہوئے کہ آٹھ دنوں کی دُہرائی اور پکائی کے بعد بھی بابے کا کلمہ کچّے کا کچّا ہی رہا۔
“بابا جی! کلمہ طیّبہ کو صحیح اور دُرست مخرج کی ادائیگی کے ساتھ پڑھنا ہی دُرست اور ثواب ہے، غلط یا بڑھا گھٹا کر پڑھنے سے گناہ ہوتا ہے۔۔۔”
بابا جی نے دوبارہ زیر زَبر کی غلطیاں صحیح کرائیں اور سوہنا پاک کے زائد الفاظ لگانے سے منع فرمایا۔۔۔ بابا پوپلے مُنہ سے کلمہ دہراتے ہوئے چلا گیا۔ اگلے جمعے نماز سے پہلے بابا حاضر ہوگیا، آتے ہی ہاتھ کھڑے کردئیے۔
“پیر جی زیر تے زَبر دی غلطی تو ٹھیک ہو گئی ہے پر “سوہنا پاک” لگائے بغیر میں کلمہ شریف نہیں پڑھ سکتا، میرے مُنہ سے خالی محمد رسول اللہ نکلتا ہی نہیں ہے۔۔۔ آپ کے بچے سلامت رہیں، آپ اللہ کولوں مجھے سوہنا پاک لگا کر کلمہ پڑھنے کی اجازت لے دیں۔ بے شک کہہ دیں کہ بابے چراغ دین دے مُونہوں خالی محمد رسول اللہ پَھبدا ای نہیں۔۔۔”
بابا جی اور ہم سب ہم نشیں بابے چراغ دین کا پوپلا مُنہ دیکھ رہے تھے۔ بابا جی نے تیسری بار پھر بابے کو صحیح کلمہ پاک پڑھنے کی تلقین کر کے رُخصت کردیا۔ اِس بار رُخصت ہوتے سَمے وہ بوڑھا کچھ دِل گرفتہ سا نظر آیا تھا۔
کچھ دنوں سے بابا جی کے دُشمنوں کے مزاج برہم تھے۔ مجالسِ خاص و عام موقوف تھیں، کھانے پینے اور عبادات کے اوقات میں بھی خلل واقع تھا۔ روزانہ آنے جانے والے احباب کے علاوہ ہم دو تین خادمِ خاص جنہیں بابا جی کے مزاج میں خاصا دخل تھا، پریشان سے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں؟ ایسی کِسی میں جرات نہیں تھی کہ زبان کھول کر پُوچھ لیں، لے دے کر ایک صرف میں ہی تھا جس پہ سب کی نظر تھی کہ میں ٹوہ لگاؤں کہ سرکار کے مزاج کیوں برہم ہیں، نصیبِ دشمناں طبیعت پہ کیا بوجھ ہے؟
ظہرانے کے فوراً بعد، قیلولے سے پہلے میں اجازت لے کر حُجرے میں داخل ہوا۔ وہ فرشی نشست پہ نیم دراز سے کسی کتاب کے مطالعہ میں مگن تھے، وعلیکم السلام کہتے ہوئے کتاب بند کردی اور فرمایا۔
“بابا چراغ دین کے پِنڈ جانا ہے۔۔۔”
مسلسل اڑھائی گھنٹے تانگے پہ سفر کے بعد جب ہم بابے کے پِنڈ پہنچے تو گاؤں کی مسجد میں عصر کی اذان ہو رہی تھی۔ ہم سیدھے مسجد میں ہی چلے گئے۔ مسجد کے امام مولوی محمد رمضان کو جب معلوم ہوا کہ بابا جی تشریف لائے ہیں تو اس نے اپنے ذرائع سے کانوں کان پورے گاؤں میں یہ خبر اُڑا دی، دیکھتے ہی دیکھتے مسجد نمازیوں سے آسودہ ہوگئی۔ بابا چراغ دین اور اس کا بیلی بابا عِلم دین بھی آئے۔ عورتیں، بچّیاں، بوڑھیاں مسجد کے باہر پیپل کے درخت تلے جمع ہوگئیں۔ سُنّتوں سے سب فارغ ہوئے تو مولوی صاحب نے بابا جی کی خدمت میں امامت کے لئے درخواست کی، بابا جی نے متبسّم لہجے میں سب نمازیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
“اللہ کے نیک بندوں! آج میں خود ایک ایسے اللہ کے بندے کے پیچھے نماز ادا کرنے کے لئے یہاں تک آیا ہوں جو آپ کے گاؤں کا ہی وسیک ہے اور آپ سب اُس اللہ کے بندے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اب اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اُس اللہ کے بندے سے درخواست کروں کہ وہ ہماری امامت کرے۔۔۔”
سب نمازیوں نے “سُبحان اللہ’ سُبحان اللہ” کہتے ہوئے اپنی رضا مندی کا اظہار کردیا۔ تب بابا جی اُٹھے اور بابے چراغ دین کے پاس پہنچے دونوں ہاتھوں سے اُٹھایا ساتھ لے کر امامت کے مصلّے پہ لاکھڑا کیا، خود تکبیر کہنے کے لئے اس کے عقب میں کھڑے ہوگئے۔ اب بابے چراغ دین کا یہ عالم کہ وہ باؤلوں کی طرح اِدھر اُدھر سب کو دیکھ رہا ہے۔۔۔ اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اُس کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟۔۔۔ بابا جی نے اُسے کہا۔
“بابا چراغ دین! آج ہم سب تمہاری اقتداء میں نماز ادا کرینگے۔۔۔ میں تکبیر پڑھتا ہوں، تم نماز شروع کراؤ۔۔۔”
پھر وہی بات کہ بابے چراغ دین کے پلّے کچھ نہیں پڑ رہا تھا کہ اُس کے ساتھ آج یہ کیا ہو رہا ہے؟ اُس کے ساتھ تو ویسے ہی نمازی کھڑے ہونے سے اجتناب برتتے تھے کہ جب جماعت قیام میں ہوتی تو بابا رکوع میں چلا جاتا، قعدے کے وقت وہ سجدے میں پڑا ہوتا اور خدا جانے وہ کیا کچھ پڑھتا رہتا۔ اکثر وہ سجدے میں پڑا پڑا خرّاٹے بھی لینے لگتا۔ نماز دُعا کے بعد نیک دِل نمازی اُسے بیدار کر کے ہاتھ بازو تھامے گھر تک پہنچا آتے۔ اب اسی نیم مخبوط الحواس چراغ دین کو بابا جی نے پورے گاؤں کے خورد و کبیر کی نماز کا “فرسٹ کیپٹن” بنا کر مسجد کے “کاک پٹ” میں بٹھا دیا تھا۔ کوئی کیا بولتا، بابا جی کی حیثیت اور مرتبے سے سب ہی واقف تھے۔۔۔ بابا جی نے تکبیر پڑھنی شروع کردی، ختم بھی ہوگئی۔ اب بابا چراغ مُنہ کعبے کی طرف کرے۔ “اللہ اکبر” کہے تو مقتدی بھی “اللہ اکبر” کہہ کر ہاتھ باندھیں مگر بابا چراغ دین تو رُخ نمازیوں کی جانب کئے بِٹ بِٹ سب کو دیکھ رہا تھا۔ بابا جی نے اسکا رُخ قبلہ شریف کی جانب موڑا، خود ہی اُس کے ہاتھ ناف پہ رکھوائے اور خود اللہ اکبر کہہ نیّت باند لی۔ مقتدیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔۔۔ ایک منٹ، دو منٹ، پانچ منٹ۔ حتٰی کہ اتنا وقت گذر گیا کہ کوئی مشّاق حافظ پورا پارہ ختم کر جائے۔ بابا چراغ دین آگے کھڑا کبھی پیچھے دیکھنے لگتا، کبھی پنڈلیوں اور پاؤں کو کُھجلانے لگتا۔ بوڑھے، بیماروں اور بچّوں نے تو کبھی کے کھنگورے مارنے شروع کئے ہوئے تھے مگر وہاں آگے سُننے اور ان اشاروں کو سمجھنے والا کون تھا، بابا چراغ دین! جس کے دو قدم پہلو میں توپ داغی جائے تو اُسے پٹاخے کی آواز بھی سُنائی نہ دے۔ تین چار نمازی، نماز توڑ کر صفوں سے باہر نکل گئے اور کچھ وقت اِسی کشمکش صبر و جبر میں گذر گیا۔ پھر پتہ نہیں، خدا نے کیا دِل میں ڈالی کہ بابا چراغ دین” اللہ اکبر” کہے بغیر رکوع میں چلا گیا۔ اگر اس وقت ہمارے بابا جی “اللہ اکبر” نہ کہتے تو پیچھے کسی کو بھی نہیں پتہ تھا کہ آگے رکوع بھی ہو چکا ہے۔۔۔ بہر حال، سب ہڑ بڑا کر رکوع میں چلے گئے۔ جب دس منٹ اسی طرح مرغا بنے گذر گئے تو چند اور لوگ نماز توڑ کر مسجد میں سے نکل گئے۔ کھنگورے اور مصنوعی کھانسی بدستور چل رہی تھی۔ پھر اللہ کا کرنا کچھ یوں ہوا، بابا چراغ دین وہیں سے ہی سجدے میں چلا گیا بلکہ یوں کہئے لیٹ ہی گیا۔ مقتدی بھی سجدے میں تھے اور امام بھی اور اب جیسے ان سب کو سجدے نے پکڑ لیا تھا۔ کُھسر پُھسر ہورہی ہے اور ایک دوسرے کہ کہنیاں ماری جارہی ہیں۔ آخر کب تک کوئی سجدے میں پڑا رہے؟ انسان ہے، فرشتہ تو ہے نہیں کہ سجدے میں پڑا ہے تو قیامت تک وہیں پڑا ہے۔۔۔ اب پانچ سات نفر اور کم ہو گئے۔ امام صاحب کے خرّاٹوں کی آوازیں، مسجد کے سقادے تک سُنائی دے رہی تھیں۔ دو چار اور ثقہ قسم کے نمازی لاحول پڑھتے ہوئے نماز توڑ کر گھروں کو نکل گئے۔ اب پچھلی صفوں کی حالت مکئی کی اس کچّی پکّی چھلّی (بھٹے) جیسی تھی جس کے چَھدرے چَھدرے دانے ہوتے ہیں۔
صرف پہلی صف جس میں کچھ معزّزینِ گاؤں اور بابا جی سرکار تھے، دائیں بائیں اور آخری ایک دو نمازی غائب ہو جانے کے با وجود سالم تھی۔۔۔ کہیں پیچھے سے کسی بچّے کی آواز اُبھری۔
“اوئے بابا دینیاں مرگیا ایں یا جیونیاں ایں۔۔۔؟”
ہمارے بابا جی نے اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے سے سر اُٹھایا، سلام پھیر کر نماز توڑ دی۔ پھر بلند آواز سے “انا للہ واِنا اِلیہ رَاجعون” پڑھا۔۔۔ عشاء کے بعد بابا چراغ دین کی نمازِ جنازہ بابا جی نے پڑھائی۔ اپنے گاؤں کے علاوہ نزدیک و دُور کے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ بڑے بوڑھوں نے کہا آج تک اِس علاقے میں کسی انسان کا اتنا بڑا جنازہ نہیں دیکھا گیا۔ دفن کے وقت بابا جی نے خود اپنے ہاتھوں سے مٹّی دی اور دُعا کے بعد لوگوں سے کہا۔
“لوگوں! تم کیا جانو کہ تمہارے درمیان سے آج کون سی ہستی، عالمِ بالا کی جانب مراجعت کرگئی ہے۔۔۔ اَن پڑھ، دیہاتی سا بابا چراغ دین جسے نماز آتی تھی اور نہ کلمہ شریف صحیح سے پڑھا جاتا تھا۔ اسے کلمہ شریف پڑھتے وقت” سوہنا پاک” کی اضافت کے ساتھ “محمد رسول اللہ” کہنا اچھا لگتا تھا۔ بس اسی سوہنے پاک محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صدقے میں ہی اللہ نے اپنے اس سادے مُرادے انسان کو بخشش کا وہ رُتبہ عطا فرما دیا جس کی خواہش ولی اور قُطب کیا کرتے ہیں۔۔۔ بے شک، اللہ پاک کو اخلاص ہی پسند ہے۔ کسی کی غلط ملط اَدا، سادگی، بھولپن، نادانستگی میں بے اَدبی، بے تکلّفی اور بے عِلمی بھی جس میں اِخلاص اور نیّت کی پاکیزگی شامل ہو۔ اللہ پاک کو ایسی پسند آتی ہے کہ وہ اُسے شرفِ بخشش عطا کر دیتا ہے اور کہیں بڑے بڑے عابدوں، پر ہیز گاروں اور عاملوں کاملوں کو اُن کے غرور، ریا، تکبّر، عِلم یا پرہیز گاری کے ذرا سے زعم پہ انہیں قعرِ مذلّت میں پھینک دیتا ہے۔۔۔ یاد رکھوکہ اللہ کے ہاں ادنٰی و اعلٰی صرف اس کے اِخلاص، تقوٰی، مخلوق کی خدمت سے اور اس کے پیارے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کے مراحل سے گذرنے کے بعد تعیّن کئے جاتے ہیں۔ حسب و نسب، دستار و کلاہ۔ عِلم، داڑھیاں، نمازیں، حج، منصب وغیرہ سب کچھ بیکار اور بے فائدہ ہیں اگر اخلاص موجود نہیں ہے۔ ہر وقت اللہ پاک سے اس کا فضل و کرم طلب کرتے رہا کرو۔ وہ تمہاری عبادتوں اور ریاضتوں سے بے نیاز ہے، اس سے اپنی پر ہیز گاریوں اور نمازوں کا اَجر مت مانگو۔ اپنے آپکو گنہگار اور گندہ سمجھتے ہوئے صرف اس سے، اس کی رحمت اور توفیقِ بندگی چاہو۔۔۔
اقتباس ازپیا رنگ کالا : مصنف بابا محمد یحییٰ خان
No comments:
Post a Comment